“Dow” by Dr. Qambar Raza Naqvi Dow 1983

Qambar Raza Naqvi's Profile Photo, Image may contain: 1 person, smiling, ocean and closeup

I wrote and have recited a poem about Dow in England and America several times ,
I am D83;   I am sure lot of Dowites will enjoy ……

‎ڈاو

‎وہ میری درسگاہِ عشق جسےمیں ڈاو کہتا تھا
‎وہاں اللہ بھی رہتا تھا وہاں پر رام رہتا تھا

‎بڑی مشکل سے ایڈمیشن ملا کرتا تھا ڈاو میں
‎بٹے تھے لوگ اُس جا پر بہت مذہب و ماو میں

‎کوی تھا نیشنل سے اور کوی ڈی جے سے آتا تھا
‎شہر کا ہر بڑا ٹیچر ہمیں آکر پڑھاتا تھا

‎بہت سے لوگ آدم جی و باوانی سے آتے تھے
‎مگر ڈاو میں آکر بس اُسی کے گُن وہ گاتے تھے

‎سیاست جم کے ہوتی تھی محبت چُھپ کے ہوتی تھی
‎کلاسیں ختم ہو جاتیں تو پھر کرکٹ بھی ہوتی تھی

‎”معین” کی سیڑھیوں پہ عشق بھی پروان چڑھتے تھے
‎بہت سے رہنما آکر وہیں تقریر کرتے تھے

‎جب عشقی معاملہ تھوڑا سا آگے کو چلا جاتا
‎تو “جوڑا” سیڑھیوں سے اور بھی اوپر چلا جاتا

‎اگر “فزیو” میں بیٹھے ہو تمہارا عشق کچا ہے
‎اگر “ہسٹو” تلک پہنچا تو سالا عشق سچا ہے

‎بہت سے لوگ تو بس دور سے ہی عشق کرتے تھے
‎بہت چاہتے تھے وہ محبوب کو پر اُس سے ڈرتے تھے

‎نہ کوی غم تھا نہ کھٹکا نشہ تھا اک جوانی کا
‎ابھی تک یاد ہے مجھ کو الیکشن وہ شیخانی کا

‎جماعتی اور سُرخے جم کے نعرے بازی کرتے تھے
‎اساتذہ بہت کُھل کے طرفداری بھی کرتے تھے

‎وہیں سے عشق بھی سیکھا وہیں تعلیم بھی پای
‎وہی تھی عمر بس قمبر کہ سب دنیا سمجھ آی

‎بہت عرصہ ہوا اُس بات کو گذرے اگر دیکھ
‎وہیں بنیاد اپنی تھی پڑی قمبر مگر دیکھو

About

View all posts by