I wrote and have recited a poem about Dow in England and America several times ,
I am D83; I am sure lot of Dowites will enjoy ……
ڈاو
وہ میری درسگاہِ عشق جسےمیں ڈاو کہتا تھا
وہاں اللہ بھی رہتا تھا وہاں پر رام رہتا تھا
بڑی مشکل سے ایڈمیشن ملا کرتا تھا ڈاو میں
بٹے تھے لوگ اُس جا پر بہت مذہب و ماو میں
کوی تھا نیشنل سے اور کوی ڈی جے سے آتا تھا
شہر کا ہر بڑا ٹیچر ہمیں آکر پڑھاتا تھا
بہت سے لوگ آدم جی و باوانی سے آتے تھے
مگر ڈاو میں آکر بس اُسی کے گُن وہ گاتے تھے
سیاست جم کے ہوتی تھی محبت چُھپ کے ہوتی تھی
کلاسیں ختم ہو جاتیں تو پھر کرکٹ بھی ہوتی تھی
”معین” کی سیڑھیوں پہ عشق بھی پروان چڑھتے تھے
بہت سے رہنما آکر وہیں تقریر کرتے تھے
جب عشقی معاملہ تھوڑا سا آگے کو چلا جاتا
تو “جوڑا” سیڑھیوں سے اور بھی اوپر چلا جاتا
اگر “فزیو” میں بیٹھے ہو تمہارا عشق کچا ہے
اگر “ہسٹو” تلک پہنچا تو سالا عشق سچا ہے
بہت سے لوگ تو بس دور سے ہی عشق کرتے تھے
بہت چاہتے تھے وہ محبوب کو پر اُس سے ڈرتے تھے
نہ کوی غم تھا نہ کھٹکا نشہ تھا اک جوانی کا
ابھی تک یاد ہے مجھ کو الیکشن وہ شیخانی کا
جماعتی اور سُرخے جم کے نعرے بازی کرتے تھے
اساتذہ بہت کُھل کے طرفداری بھی کرتے تھے
وہیں سے عشق بھی سیکھا وہیں تعلیم بھی پای
وہی تھی عمر بس قمبر کہ سب دنیا سمجھ آی
بہت عرصہ ہوا اُس بات کو گذرے اگر دیکھ
وہیں بنیاد اپنی تھی پڑی قمبر مگر دیکھو